Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۵(کتاب المداینات،کتاب الاشربۃ ، کتاب الرہن ، کتاب القسم ،کتاب الوصایا۔)
3 - 135
مسئلہ ۵ : ۲۱جمادی الآخرہ ۱۳۱۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے یافتنی مبلغ نوّے روپے ذمہ بکرکے واجب الادا ہیں جس کا اقرار بکرنے زیدسے کیاکہ مبلغ نوے روپے عرصہ نوسال میں بحساب دس روپے سالانہ اداکیاکروں گا روپیہ آخرسال فصل پردیا کروں گا اگرکسی سال کاروپیہ وعدہ مندرجہ اقرارنامہ پر ادانہ کروں توکل روپیہ یکمشت فوراً اداکروں گا اورزیدکو اختیارہے کہ بشرط وعدہ خلافی ایک قسط کے، کل روپے یکشمت مجھ سے لے لے۔ تواب یہ امر دریافت طلب ہے کہ درصورت وعدہ خلافی ایک قسط کے کل روپیہ یکمشت واجب الادا ہوا یانہیں؟ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب :  صورت مسئلہ میں بلاشبہہ کل روپیہ یکمشت واجب الاداہوگیا۔ فتاوٰی خلاصہ، فتاوٰی بزازیہ وطحطاوی علی الدرالمختار میں ہے :
لوقال کلما حل نجم ولم تؤد فالمال حال صح وصار حالا ۱؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم۔ اگرکہاکہ وقت مقررہ پرقسط ادانہ کی گئی تو مال  حالی ہوجائے گا (مؤجل نہیں رہے گا) توصحیح ہے اورمال حالی ہوجائے گا۔(ت) واﷲ تعالٰی اعلم
  (۱؎ ردالمحتار     کتاب البیوع     مایبطل بالشرط الفاسد الخ     دراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۲۲۸)
مسئلہ ۶ :  ازاجین مکان میرخادم علی صاحب اسسٹنٹ مرسلہ حاجی یعقوب علی صاحب ۱۱/محرم الحرام ۱۳۱۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے ذوی الاحترام ومفتیان پابندشرع خیرالانام اس مسئلہ میں کہ ہری سنگھ چودھری کاقرضہ واجب الادا رحیم الدین پرہے اوردونوں فوت ہوگئے اورکوئی وارث شرعی نہیں رکھتے کہ قرض ادا کیاجائے کیونکہ قرضہ غیرمسلم پرہے توبدلا ایک دوسرے کی نیکی پرموقوف ہے اعنی سوائے ایمان کے نیکی اس کے قرض خواہ کودینا لائق اعتبار اوراگرمعرکہ اعمال نیک ہے تومدعا علیہ کی نیکی مدعی کو دینا لابد اورمدعا علیہ بری اورکافر مستحق نیکی نہیں کہ اہل اسلام ہوکہ اس کی بدی سوائے شرک وکفراورنہیں اورشرک وکفراہل اسلام پرعائدنہیں ہوتا اس صورت میں تصفیہ اہل اسلام اوراہل نار کس طور سے ہوگا، بیان فرمادیں بحوالہ کتب۔
الجواب : اگروہ کافرحربی ہے تو اس کے مال کے سبب مسلمان پرحق العبد لازم نہیں جس کاتصفیہ درکار فان اموالھم مباحۃ غیرمعصومۃ (کیونکہ حربی کافروں کامال مباح ہے معصوم نہیں۔ت) ہاں بطورغدر وعہد شکنی لیاہوگناہ وحق اﷲ ہے جس پر مواخذہ یاعفواﷲعزوجل کی مشیّت میں ہے)
الاتری ان من دخل دارھم مستأمنا فاخذ غدراً  فاحرز بدارنا ملک ملکا خبیثا فالخبث للغدر  والملک للاستیلاء علی مال مباح فالاحراز انما ھو شرط التملک لانتفاء العصمۃ ارأیت ان اغار مسلمون علی دارالحرب فغنموا اموالا فماتوا قبل ان یحرزوا ولم تصل الاموال الی من اخذت منہ اتکون الحربیون خصماء المسلمین فی ذٰلک عنداﷲ کلانعلم ان الاثم فی العذر لحق الشرع لالحق الکافر۔
کیاتونہیں دیکھتا کہ جومسلمان امن لے کر حربیوں کے ملک میں گیا اوران کامال دھوکہ سے اپنے ملک میں سمیٹ لایاتو ملک خبیث کے ساتھ مالک ہوا۔ خبث تودھوکہ کی وجہ سے اورملک اس لئے کہ مال مباح پرقابض ہواہے۔ لہٰذا اس مال کو قبضہ میں لے کرمحفوظ کرنامالک ہونے کے لئے شرط ہے عصمت کے منتفی ہونے کی وجہ سے۔ بھلادیکھو تواگرمسلمان دارالحرب پرحملہ آورہوکرمال غنیمت پائیں اور اس کو جمع کرکے محفوظ مقام تک پہنچانے سے قبل ہی مرجائیں توکیا اﷲ تعالٰی کے ہاں اس مال کے بارے میں وہ حربی کفارمسلمانوں سے مخاصمہ کریں گے؟ ہرگزنہیں۔ تومعلوم ہواکہ دھوکہ کی صورت میں گناہ حق شرع کی وجہ سے ہے نہ کہ حق کافر کی وجہ سے۔(ت)
اور وہ کافرذمی ہے تواگریہ قرض اس نے سچی نیت سے لیا اور اس کے ادا کاقصدرکھتاتھا اورقدرت نہ پائی کہ مرگیا تومسلمان پر اس کے باعث عذاب نہ ہوگا کہ قرض لینا گناہ نہیں اوراداپر قادرنہ ہونا اس کافعل نہیں۔ اور اﷲ عزوجل بے کسی گناہ کے عذاب نہیں فرماتا۔ رہا اس کا حق اسے اﷲ تعالٰی جس طرح چاہے راضی فرمادے گا  اگرچہ اس پرکسی عذاب یاہول کی تخفیف سے ہرکافر پرکفر ومعاصی سب کے سبب عذاب ہے۔
قال تعالٰی : ماسلککم فی سقر، قالوا لم نک من المصلین۔۱؎
الاٰیۃ۔ مسلمان کافروں سے کہیں گے تمہیں کس چیز نے جہنم میں پہنچایا تو وہ کہیں گے ہم نمازنہیں پڑھتے تھے(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۷۴ /۴۳۔۴۲)
جزاءکفرتخلید فی النار والعذاب ہے اس میں تخفیف امکان شرعی نہیں رکھتی،
فان التخفیف فی التابید ابطال لہ  رأسا وفیہ تبدیل القول وھو محال۔
ہمیشگی میں تخفیف اس کا ابطال ہے اور اس میں قول باری تعالٰی کی تبدیلی لازم آتی ہے جوکہ محال ہے۔(ت)
باقی بالائی عذابوں ہولوں میں حسب ارادہ الٰہیہ تخفیف سے کوئی مانع نہیں، اوررسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من اخذ اموال الناس یرید اداءھا ادی اﷲ عنہ۔رواہ احمد۲؎ والبخاری وابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
جولوگوں کامال بہ ارادہ ادالے اﷲ تعالٰی اس کی طرف سے ادافرمادے (اس کو امام احمد، بخاری اورابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۲؎ صحیح البخاری     کتاب فی الاستقراض     باب من اخذاموال الناس الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۳۲۱)
اورفرماتے ہیں صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم :
من ادان دیناینوی قضاءہ اداہ اﷲ عنہ یوم القیٰمۃ۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر۱؎ عن میمونۃ رضی اﷲ تعالٰی عنھا بسند صحیح۔
جوکوئی دین اپنے ذمہ کرے اوراس کی ادا کی نیت رکھتاہے اﷲ عزوجل روزقیامت اس کی طرف سے ادافرمادے (اس کی طبرانی نے معجم کبیرمیں حضرت میمونہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے بسندصحیح روایت کیا۔ت)
 (۱؎ المعجم الکبیر   حدیث ۱۰۴۹   المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت    ۲۳ /۴۳۲)

(کنزالعمال   برمزطب عن میمونہ    حدیث ۱۵۴۲۷    مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۶ /۲۲۱)
اوراگربدنیتی اورناجائز طریقے سے لیاتوضرورگناہ وحق العبدہے ذمی کامال معصوم ہے اور وہ ان حقوق میں مثل مسلمانوں کے سمجھاجاتاہے اس صورت میں علماء فرماتے ہیں کہ اس کابدلہ عذاب ہی ہے، والعیاذباﷲ تعالٰی۔ 

ولہٰذا فرماتے ہیں کہ ذمّی کاحق مسلمان کے حق سے سخت ترہے۔ فتاوٰی خانیہ آخرکتاب الغصب میں ہے :
مسلم غصب من ذمی مالااوسرق منہ فانہ یعاقب بہ یوم القیٰمۃ لانہ اخذ مالامعصوما والذمی لایرجی منہ العفو ویرجی ذٰلک من المسلم فکانت خصومۃ الذمی اشد وعندالخصومۃ لایعطی ثواب طاعۃ المسلم الکافر لانہ لیس من اھل الثواب ولاوجہ ان یوضع علی المسلم وبال کفرالکافر فیبقی فی خصومتہ۔۲؎
کسی مسلمان نے ذمی کامال غصب کیایاچوری کیاتوروزقیامت اس کو سزادی جائے گی کیونکہ اس نے مال معصوم لیا حالانکہ ذمی سے معافی کی امیدبھی نہیں کیونکہ وہ تومسلمان سے متوقع ہے، لہٰذا خصومت ذمی زیادہ شدیدہے۔ خصومت کے وقت مسلمان کی عبادت کا ثواب کافرکو نہیں دیاجائے گا کیونکہ وہ ثواب کا اہل نہیں اورنہ ہی کفرکافرکاوبال مسلمان پرڈال دینے کی کوئی وجہ ہے لہٰذا اس کی خصومت برقرار رہے گی۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں  کتاب الغصب  فصل فی براءۃ الغاصب الخ     نولکشورلکھنؤ    ۴ /۴۹۳)
جواہرالاخلاطی کتاب الاستحسان میں ہے:
لم غصب المسلم من ذمّی اوسرق منہ یعاقب المسلم ویخاصمہ الذمی یوم القیٰمۃ فظلامۃ الکافر اشد من ظلامۃ المسلم لان الکافر من اھل النار ابدا ویقع لہ التخفیف بالظلامات التی قبل الناس فلایرجی منہ ان یترکھا اوالمسلم یرجی منہ العفو۔۱؎
اگرمسلمان نے ذمی سے کچھ غصب کیایا اس کی چوری کی تومسلمان کوسزادی جائے گی اورذمی قیامت کے روز اس سے خصومت کرے گا لہٰذا کافرپرظلم  مسلمان پر ظلم سے سخت ترہے کیونکہ کافر دائمی جہنمی ہے اورلوگوں کی اس پرجو زیادتیاں ہیں ان کے سبب سے اس کے عذاب میں تخفیف ہوگی لہٰذا اس سے یہ امیدنہیں کہ وہ ان زیادتیوں کومعاف کرے گا، البتہ مسلمان سے معافی کی توقع جاسکتی ہے۔(ت)
 (۱؎ جواہرالاخلاطی     فصل فیما یکرہ لبسہ وفیمالایکثر    قلمی نسخہ     ص۲۳۸۔۲۹۷)
طریقہ محمدیہ وحدیقہ ندیہ بیان آفات الرجل میں ہے :
الفقھاء قالوا ان العذاب یوم القیٰمۃ علی الانسان فی حق الحیوان متعین لانہ لایمکن المسامحۃ ولاالقصاص بالحسنات والسیئات وکذا الذمی اذاطلمہ المسلم فان العذاب فیہ متعین ان لم یستحل منہ فی الدنیا قال الوالد رحمہ اﷲ تعالٰی فی شرحہ علی شرح الدرر مسلم غصب اوسرق مال ذمی یؤخذ بہ فی الاٰخرۃ وظلامۃ الکافر وخصومتہ اشد لانہ اما ان یحملہ ذنبہ بقدرحقہ اویاخذ من حسناتہ والکافر لایاخذ من الحسنات ولا ذنب للدابۃ ولا تؤھل لاخذ الحسنات فیتعیّن العقاب۲؎ اھ  باختصار۔
فقہاء نے فرمایاہے حیوان پر ظلم کی وجہ سے قیامت کے روزانسان پرعذاب کاواقع ہونامتعین ہے کیونکہ اس میں معافی اورنیکیوں اوربرائیوں سے بدلہ ممکن نہیں۔ ایساہی ذمی جس پرمسلمان نے ظلم کیاہوتو اس مسلمان پرعذاب متعین ہے جبکہ دنیامیں اس سے معاف نہ کرالیاہو۔ حضرت والد رحمہ اﷲ تعالٰی نے شرح الدررپر اپنی شرح میں فرمایا کسی مسلمان نے ذمی کامال غصب کیا یاچرایا تو اس پرآخرت میں مؤاخذہ ہوگاحالانکہ ذمی کا ظلم وخصومت سخت ترین ہے کیونکہ یاتو وہ اپنے گناہ اپنے حق کے مطابق مسلمان پرڈالے یا اس کی نیکیاں لے حالانکہ کافرنہ تو مسلمان کی نیکیاں لے سکتاہے اورنہ اس کے گناہ مسلمان پرڈالے جاسکتے ہیں، چارپائے کاکوئی گناہ نہیں ہوتا اور نیکیوں کاوہ اہل ہی نہیں لہٰذا عذاب متعین ہوا اھ  اختصار(ت)
(۲؎ الحدیقۃ الندیۃ   شرح الطریقۃ المحمدیۃ  الصنف الثامن من الاصناف التسعۃ الخ     المکتبۃ النوریۃ رضویہ فیصل آباد      ۲ /۵۰۷)
شرح فقہ اکبربحث توبہ میں ہے کہ :
اذا غصب مسلم من ذمی مالا اوسرق منہ فانہ یعاقب بہ یوم القیٰمۃ لان الذمی لایرجی منہ العفو فکانت خصومۃ الذمی اشد۔۱؎
جب کسی مسلمان نے ذمی کامال غصب کیایاچرایا تو اس کی وجہ سے اس کو قیامت کے دن عذاب دیاجائے گا کیونکہ ذمی سے عفو کی توقع نہیں لہٰذا ذمی کی خصومت زیادہ سخت ہے۔
 (۱؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر    ومنہا بحث التوبۃ الخ    مصطفی البابی مصر     ص۵۹۔۱۵۸)
مگریہ اسی حالت میں ہے جبکہ بدلہ لیناہی مشیت رب العزۃ عزجلالہ ہو ،ورنہ ممکن ہے کہ وہ کافرکے دل میں ڈالے کہ معاف کردے یاکسی تخفیف کے بدلے اس سے معاف کرادے،
فانہ اذاجاز التخفیف عنہ بظلمات لہ قبل الناس کما فی الجواھر فلیجزایضاً جزاء العفو تخلیصا للمسلم وقد قال الطحطاوی ثم الشامی عند قول الدر من الحظر قبیل مسائل المسابقۃ، ظلم الذمی اشد من ظلم المسلم۲؎ مانصہ لانہ یشدد الطلب علی ظالمہ لیکون معہ فی عذابہ ولامانع من طرح سیئات غیرالکفر علی ظالمہ فیعذب بھا بدلہ ذکرہ بعضھم۳؎ اھ  فکذا لامانع من ان یقال لہ ان یفوت من المسلم طرحنا منک کذا وکذا من سیئاتک فیعفو۔
اس لئے کہ جب لوگوں کی ذمی پر زیاتیوں کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف جائز ہے جیساکہ جواہرمیں ہے تویہ بھی جائزہے کہ اﷲ تعالٰی مسلمانوں کی خلاصی کے لئے ذمی کو معاف کرنے کا کچھ بدلہ دے کراس کی خلاصی کرادے۔ طحطاوی نے کہا پھرشامی نے در کے خطرمیں مسائل سابقہ سے تھوڑا  پہلے اس قول کہ ''ظلم ذمی ظلم مسلمان سے اشد ہے'' پرکہا یہ اس لئے ہے کہ ذمی اپنے اوپر ظلم کرنے والے پرسخت مطالبہ کرے گا تاکہ وہ ظالم بھی اس کے ساتھ عذاب میں شریک ہو اور کفرکے سوائے ذمی کے گناہ ظالم پرڈالنے میں کوئی مانع نہیں چنانچہ وہ ان کے بدلے عذاب میں مبتلاہوگا، اس کو بعض علماء نے ذکرکیا ہے  اھ  اسی طرح اس سے بھی کوئی مانع نہیں کہ ذمّی کوکہاجائے اگرتو مسلمان کومعاف کر دے توتیرے یہ یہ گناہ مٹا دئیے جائیں تو وہ معاف کردے۔(ت)
 (۲؎ الدرالمختار    کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی البیع      مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۲۴۹)

(۳؎ ردالمحتار  کتاب الحظروالاباحۃ     فصل فی البیع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۲۵۷)

(حاشیۃ الطحطاوی علٰی الدرالمختار    کتاب الحظروالاباحۃ   فصل فی البیع   دارالمعرفۃ بیروت     ۴/ ۲۰۱)
بالجملہ یہ معنی ہرگزنہیں کہ ظلم ذمّی پر عذاب واجب وقطعی وضروری الوقوع ہے کہ یہ مذہب اہلسنت کے صریح خلاف ہے۔ ہمارے نزدیک کفرکے سوا کسی گناہ کاعذاب ضروری الوقوع نہیں۔
قال تعالٰی ویغفرمادون ذٰلک لمن یشاء ۱؎
کما نبھت علیہ فی ھامش الحدیقۃ ھٰھنا۔ واﷲ سبحٰنہ  وتعالٰی  اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اوروہ شرک کے سوا جس کے گناہ چاہے معاف فرمادے۔ جیساکہ اس بات پر میں نے حدیقہ کے حاشیہ میں تنبیہ کی ہے۔(ت) واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
 (۱؎ القرآن الکریم    ۴ /۴۸)
مسئلہ ۷ :  ازبنارس محلہ جمال ٹولہ مرسلہ ماسٹربدرالدین ۴ رجب ۱۳۱۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے مختلف لوگوں سے قرض لے کر اپنے نکاح کی تقریب میں خرچ کیا اورایک ڈگری کوبھی جوعدالت دیوانی سے اس پرجاری ہوئی تھی بے باق کیا بعدہ، اس نے اپنا حق وحصہ موروثی جائداد کادوسوکاقرارے کر اس زوجہ کے دین مہرمیں جوساڑھے پانسو کاتھا بیع کرکے رجسٹری کرادیا بیعنامہ میں زیدنے یہ بھی تحریرکیاہے کہ اگرمیری جائداد اورقرارپائے تو بقیہ مہراس سے اداکیاجائے، زیدفوت ہوگیا اوراس کی کوئی دوسری جائدادنہیں ہے اس وقت تقسیم جائدادموروثی کے واسطے اوران انواع واقسام کے نزاع کے واسطے جودرمیان فریقین ہیں جوپنچ مقررہوئے ہیں قرضہ دہندوں نے پنچ کے یہاں درخواست کی ہے کہ متوفی کی جائداد سے دلایاجائے، زیدنے بیوی اورایک پسرنابالغ چھوڑا ہے۔ بیّنواتوجروا(بیان فرمائیے اجرپائیے۔ت)
الجواب : اگرزیدنے اپنی کل جائداد بحالت صحت نفس وثبات عقل اپنی زوجہ کے مہرمیں بیع کردی اورباقی قرضخواہوں کوکچھ نہ دیا تو اگرچہ زید پربحال بدنیتی گناہ ہومگر قرضخواہوں کو اس جائداد سے کہ اب مِلک زوجہ زیدہے اصلاً مطالبہ کااختیار نہیں ان کامطالبہ آخرت پر رہا، ہاں اگر اس کے سوا اورجائداد یامال زیدکا ثابت ہو تو  اس میں توقرضخواہ حصہ رسد حقدارہوں گے اورزیدکابیعنامہ میں لکھناکہ اس سے بھی بقیہ مہراداکیاجائے مسموع نہ ہوگا ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۸ :  ازشہرکہنہ ۲۸ربیع الاول شریف ۱۳۲۰ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں، زیدنے بکرکوروپیہ بوعدہ ادائے مال کسی قسم کے دیا، بکرنے بموجب وعدہ روپیہ کے عوض میں تھوڑا مال روپیہ سے اداکیا اورکچھ روپیہ زیدکا ذمہ بکر کے باقی رہا،بعدازاں بکر فرار ہوگیا یا فوت ہوگیا یانادار ہوگیا، اب زیدکوبکر کے عوض کا روپیہ خالد سے بلا رضامندی خالد کے بوجہ کسی قسم کے دباؤ کے وصول کرناجائزہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : اگرنہ خالدنے بکرکی ضمانت مال مذکورکرلی تھی نہ اس کامطالبہ اپنے  اوپر تھانہ خالد کو بکرکامال  وراثۃً پہنچاتو اس کوبکر کے مطالبہ میں ماخوذکرنا محض طلم وغصب ہے۔
قال اﷲ تعالٰی لاتزر وازرۃ  وزر اخری۔۱؎
واﷲ تعالٰی اعلم۔ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کابوجھ نہ اُٹھائے گی۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ القرآن الکریم     ۱۷ /۱۵)
مسئلہ ۹ :  مسئولہ جناب مرزاعبدالقادربیگ صاحب بریلی محلہ نواباں ماہ ربیع الآخر۱۳۲۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زیدایک یاچنداشخاص کے زرنقد کاقرضدار ہے جو اس کی آمدنی ہوتی ہے وہ اس کو بفراغت خرچ کرڈالتاہے اورزیادہ دستیاب ہونے پر عمارت بنوانے وتجارت کرنے پرتیار ہوجاتاہے تقاضہ اوروعدہ ہونے پر بھی ادائیگی کی فکرنہیں کرتاہے قرضہ بڑھانے کے خیال میں رہتاہے، اس عمل پر چندمثالیں ان بزرگان بے نفس کی کہ جواتفاقیہ جزوی قرضدار رہے ہوں یاکسی مجبوری سے قرضہ کی حالت میں اس دارفانی سے رحلت فرماہوئے ہوں زیداپنی صفائی پیش کرتاہے اورکہتاہے کہ وعدہ کرلینامیراکام تھا اورپوراکرنا اﷲ تعالٰی کاکام  ہے۔ پس قرضہ کوبزرگان دین پر اور وعدہ پرقرضہ کی ادائیگی کی فکرنہ کرنے کو اﷲ تعالٰی پرمنسوب کرناکیساہے؟ اوراگر اسی ٹال مٹول میں قرضخواہ وقرضدار دونوں فوت ہوگئے تویوم جزا اور روزحساب کیا؟ اورکیونکراس کامعاملہ طے ہوگا؟ عنداﷲ جواب تفصیل عطافرمایاجائے۔
الجواب : حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں  :
لیّ الواجد یحل عرضہ۲؎ ومطل الغنی ظلم۱؎۔
ہاتھ پہنچتے ہوئے کا ادائے دین سے سرتابی کرنا اس کی آبرو کوحلال کردیتاہے یعنی اسے براکہنا اس پر طعن وتشنیع کرناجائز ہوجاتا ہے اورغنی کادیرلگاناظلم ہے۔
 (۲؎ صحیح البخاری     کتاب فی الاستقراض     باب لصاحب الحق مقال الخ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۳۲۳)

(۱؎ صحیح البخاری    کتاب فی الاستقرارض     باب مطل الغنی ظلم     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۳۲۳)
اشباہ والنظائرمیں ہے :
خلف الوعد حرام۔۲؎
وعدہ جھوٹاکرنا حرام ہے۔
 (۲؎ الاشباہ والنظائر    کتاب الحظروالاباحۃ    الفن الثانی         ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۱۰۹)
حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اٰیۃ المنافق ثلث اذا احدث کذب  واذا وعد اخلف واذا أتمن خان۳؎، اوکما قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فان الاحادیث فی المعنی کثیرۃ۔
منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے جھوٹ کہے، اور جب وعدہ کرے خلاف کرے، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (یاجیسا کہ آپ نے فرمایا اور اس معنی میں احادیث کثیر ہیں۔ت)
 (۳؎ صحیح البخاری   کتاب الایمان     باب علامۃ المنافق     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۰)
صورت مستفسرہ میں زیدفاسق وفاجر، مرتکب کبائر، ظالم، کذّاب، مستحق عذاب ہے۔ اس سے زیادہ اورکیا القاب اپنے لئے چاہتاہے، اگراس حالت میں مرگیا اوردین لوگوں کا اس پرباقی رہا اس کی نیکیاں ان کے مطالبہ میں دی جائیں گی اور کیونکردی جائیں گی تقریباً تین پیسہ دین کے عوض سات سو نمازیں باجماعت کما فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار والعیاذباﷲ العزیز الغفار(جیساکہ درمختار وغیرہ معتمد کتب میں ہے۔ اﷲ عزیز غفار  کی پناہ۔ت) جب اس کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی ان کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں گے ویلقی فی النّار اور آگ میں پھینک دیاجائے گا، یہ حکم عدل ہے، اور اﷲ تعالٰی حقوق العباد معاف نہیں کرتا جب تک بندے خود معاف نہ کریں، اورسلف صالحین کے احوال طیّبہ کو اپنے ان مظالم کی سندقراردینا اورزیادہ وقاحت اوردین متین پرجرأت ہے، اس پرفرض ہے کہ اپنے حال پر رحم کرے اوردیون سے پاک ہو، موت کودورنہ جانے آگ کا عذاب سَہانہ جائے گا۔ اﷲ تعالٰی توفیق دے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۰  : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید پرعمرو کاقرضہ آتاہے اورزید کاروپیہ بکرکے ذمہ ہے عمرونے بطورخود بلاحوالہ زیدبکرسے وہ روپیہ کہ جو اس پرزید کا آتاتھا اپنے قرضہ میں جوزیدپرتھا، لے لیااوربکرنے بلاحوالہ وبغیر اجازت زیدعمروکو وہ روپیہ دے دیا اب بکر زیدکاروپیہ دیتے وقت وہ  روپیہ کہ جو عمروکو زیدکے قرض میں بغیراجازت زیددے چکا تھا وضع کرتاہے اورزید اس کے مجرادینے سے انکارکرتاہے لہٰذا دریافت طلب امریہ ہے کہ بکر ان روپیوں کے مجرالینے کامستحق ہے یانہیں اور زید پراُن کامجرادینالازم ہے یانہیں؟بیّنواتوجروا۔
الجواب : اس صورت میں بکران روپوں کے مجرالینے کامستحق نہیں، نہ زید پراُن کامجرادینا لازم۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱: ۲۹ربیع الاول شریف یوم دوشنبہ ۱۳۳۳ھ ازکلکتہ ۴۵ کولوٹولہ اسٹریٹ 

ایک خاص کمپنی جس کے مالک ومختار سب کے سب نصرانی المذہب ہیں ان کا اعلان ہے کہ جوشخص ۳۰برس کی عمرسے پینتالیس سال کی عمرتک یعنی کامل پندرہ سال تک ہرسال چھہتّرروپے آٹھ آنے کمپنی کودیاکرے توپندرہ برس کی مدت گزرنے کے بعد اس کوکمپنی ایک ہزارر وپے دے گی، معاہدہ ہونے کے بعد مدت معینہ ختم ہونے سے پہلے مثلاً دومہینے یادوسال چارسال کے بعد وہ شخص مرگیا تویہی کمپنی اس کے وارثوں کوپورے ایک ہزارروپیہ دے گی، رقم معینہ مذکورہ سالانہ کی تعداد کامل پندرہ سال کی مجموعہ گیارہ سوسینتالیس روپیہ آٹھ آنے ہوتی ہے ایسی صورت میں روپیہ جمع کرنااورکمپنی سے مذکورہ شرط کے ساتھ روپیہ وصول کرنا جائز ہے یانہیں؟
الجواب

 یہ صورت قمارکی ہے اورمیعاد عمروہ رکھی ہے جس میں غالب حیات ہے۔ حدیث میں فرمایا : اعمار امّتی مابین الستین الی السبعین۱؎۔ میری اُمّت کی عمریں ساٹھ اورسترسال کے درمیان ہوں گی۔(ت)
 (۱؎ سنن ابن ماجہ     ابواب الزھد    باب الامل والاجل    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۳۲۲)
اوربحال حیات ظاہرہے کہ ایک سوپینتالیس روپے آٹھ آنہ کانقصان ہے کافرکے ساتھ ایسامعاملہ جس میں غالب پہلو اپنے نقصان کاہوجائزنہیں کما نص علیہ فی فتح القدیر (جیساکہ فتح القدیرمیں اس پر نص کی گئی  ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter